گورنر راج نافذ کیا گیا تو ہم سڑکوں پر عوامی راج قائم کریں گے،اچکزئی

کوئٹہ(بلوچستان نیوز )پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی 52ویں برسی کی مناسبت سے ایوب اسٹیڈیم کوئٹہ میں ایک عظیم الشان جلسہ عام کا انعقاد کیا۔ جس سے پارٹی کے چیئرمین اور تحریکِ تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی سمیت دیگر سیاسی و سماجی رہنماں نے خطاب کرتے ہوئے خان شہید کے سیاسی جمہوری جدوجہد پر خراج عقیدت پیش کیا۔محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں آئین برائے نام رہ گیا ہے۔ جب ایک گاوں متفقہ قواعد و ضوابط کے بغیر نہیں چل سکتا تو پورا ملک آئین کے بغیر کیسے چل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چوری شدہ یا زر و زور کی بنیاد پر حاصل کردہ اکثریت رکھنے والی پارلیمنٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کا حق نہیں رکھتی۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایسی اکثریت حاصل کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے خلاف ریاستی جبر کیا گیا،ہزاروں گھروں کی چادر و چار دیواری پامال کی گئی، کارکنان کو تھانوں اور عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، عزتِ نفس اور عصمت تک مجروح کی گئیں۔ اس کے باوجود عوام نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا، مگر ووٹ گننے کے بجائے تیسرے اور چوتھے نمبر کے امیدواروں پر ٹک مارکر انہیں کامیاب قرار دیا گیا، بعض کو کروڑوں روپے کے عوض جتوایا گیا۔انہوں نے کہا کہ جب پھر بھی اکثریت پوری نہ ہوئی تو تھوک کے حساب سے اپوزیشن ارکان کو عدالتی فیصلوں کے ذریعے نااہل کرا کے نشستیں جعلی حکومت کی جھولی میں ڈال دی گئیں۔ ایسے پارلیمنٹ کی نمائندہ حیثیت کہاں سے آئی؟ اور جب ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں تو حوالدار اسپیکر ناراض ہو جاتا ہے۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ عدالتیں بھی اب انصاف دینے سے قاصر ہیں۔ ہمیں حق و باطل پارلیمنٹ اور عدالت میں فرق سمجھ کر عوام کو آگاہ کرنا ہوگا۔ اسی لیے تحریکِ تحفظ آئین پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوں گے، کیونکہ ظلم پر خاموشی خدا کی پکڑ کا باعث بنتی ہے۔ ہم ظلم کے سامنے سر جھکانے والے نہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر چار کروڑ آبادی والے خیبر پشتونخوا کے حقیقی مینڈیٹ کو پامال کرکے گورنر راج نافذ کیا گیا تو ہم سڑکوں پر عوامی راج قائم کریں گے۔امن و امان اور دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پشتون اور بلوچ خطہ وسائل سے مالا مال ہے، اسی لیے یہاں گڑبڑ کی جاتی ہے۔ آپ تیراہ اور وزیرستان میں بمباری کرکے شہریوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر مذاکرات، مذاکرات کھیلتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جہاں آئین و قانون کی حکمرانی ہو وہاں وردی تحفظ کی علامت ہوتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں وردی خوف کی علامت بن چکی ہے۔ ہم امن کے داعی ہیں، جنگ وحشی جبلت کی علامت ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں حکمرانی اور وسائل کی تقسیم کا اختیار قومیتوں پشتون، بلوچ، سندھی، پنجابی اور سرائیکی کو ملنا چاہیے۔ وسائل پر طاقتوروں اور اشرافیہ نے قبضہ کر رکھا ہے جبکہ غریب کو مزدوری اور کاروبار سے بھی روکا جا رہا ہے، گوداموں اور شورومز پر چھاپے مارے جا رہے ہیں